مجھے مردوں سے نفرت ہے
جب میں آٹھ برس کی تھی تو ابو نے امی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کرلی۔ امی نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو بڑی مشکل سے پالا۔ اب میں میڈیکل کی طالبہ ہوں جبکہ بھائی ائیر فورس میں چلا گیا ہے۔ ہم نے اچھے برے دن رو پیٹ کر گزارے۔ اس وقت ہمارے کسی رشتہ دار نے ہماری کوئی مدد نہیں کی خصوصاً ننھیال والوں نے۔ اب امی چاہتی ہیں کہ میں اپنے ماموں زاد کیلئے ہاں کہہ دوں مگر میرا دل اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں ہے۔ میں رشتہ کی بات کیونکر سوچوں وہ لڑکا بھی مجھے پسند کرتا ہے مگر میںاسے پسند نہیںکرتی۔ میں ابھی کیا ساری زندگی شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میرے باپ نے ماں کے ساتھ جو ظلم کیا اس کے بعد مجھے مردوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ میں اپنی ماں کا دل بھی نہیں توڑسکتی کیونکہ مجھے ان سے بے حد محبت ہے۔ ( روشی)
مشورہ
:بیٹا کسی کا دل توڑنا بہت بڑاگناہ ہے۔ البتہ زندگی کے جس نشیب و فراز سے تم گزری ہو اور جو کرب تم نے بچپن میں اٹھایا ہے اس کے پیش نظر تمہاری تلخی بجا ہے مگر اس طرح کی حتمی سوچ اور حتمی فیصلے یقینا تمہاری والدہ کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گے اگرچہ مرد ذات سے دکھ انہوں نے اٹھایا ہے وہ تب بھی تمہارا گھر بسانے کی خواہش رکھتی ہیں اس لئے کہ یہ ان کا فرض بھی ہے اور تمہاری ضرورت بھی کیونکہ زندگی کے موڑ پر جب تم تنہا ہوگی تو شوہر ہی تمہارا سائبان ہوگا۔ اس لئے جذباتی انداز فکر سے نکلو۔ اگر ماموں زاد پسند نہیں تو انکار کردو۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ضروری نہیں کہ جو دکھ تمہاری ماں نے اٹھائے وہ تم بھی ضرور اٹھاﺅ۔
بظاہر خوش باش رہنے والی لڑکی
میں ایک متوسط گھرانے کی لڑکی ہوں۔ بظاہر بہت خوش باش نظر آتی ہوں مگر اندر سے بے حد مغموم رہتی ہوں۔ انٹر کے بعد آگے پڑھنے کو دل نہیں چاہا اس لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر میں بیٹھ گئی ہوں۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا مگر طوعاً و کرھاً اسے انجام دیتی ہوں۔ ہفتوں بلکہ مہینوں کسی دوست یا رشتہ دار سے ملے ہوئے ہوجاتے ہیں جو بھی آتا ہے وہ یہی شکوہ کرتا ہے کہ میں تنہائی پسند ہوگئی ہوں۔ اس لئے کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی مگر ایسا نہیں ہے مجھے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ میں مجلسی نوعیت کی طبیعت رکھتی ہوں مگر میں خود میں یہ سب کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ میری بے زاری سے میں ہی نہیں میرے گھر والے بھی پریشان رہتے ہیں۔ میں سخت پریشانی کا شکار رہتی ہوں۔ ( فرحانہ‘ لاہور)
مشورہ
آپ کی پریشانی خود ساختہ ہے۔ آپ نے زندگی گزارنے کیلئے خود ساختہ پریشانیوں کے خول کو اپنے گرد طاری کرلیا ہے۔ ان تمام مشکلات پر قابو بھی آپ ہی پاسکتی ہیں۔ آپ کی بے زاری اور مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت فضول سوچوں اور فضول کاموں میں گزرتا ہے۔ اس بیکار وقت کو کار آمد بنائیے‘ جب آپ کو اپنے وقت کو صحیح انداز میں ترتیب وار دینا اور گزارنا آجائے گا تو پھر یہ فضول سوچیں بھی آپ کا پیچھا چھوڑدیں گی۔ زندگی کو تعمیری انداز میں گزارنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ نے معمولی معمولی باتوں کو دل سے لگالیا ہے۔ آپ کو اس بات کی تو فکر ہے کہ کون آپ کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے مگر آپ کو اس بات کی فکر نہیں کہ آپ اپنا قیمتی وقت یوں ضائع کررہی ہیں۔ آپ خود کو مختلف مشاغل میں مصروف رکھیں۔ اپنی تعلیم کو دوبارہ شروع کریں تو آپ اس خول سے باہر آجائیں گی کیونکہ یکسانیت سے انسان ذہنی طور پر بیمار ہوجاتا ہے۔
دولت کی ہوس
میرا بڑا بھائی ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت کرتا ہے۔ اسے شروع سے پیسے کی ہوس ہے اور اس ہوس میں وہ کسی کو نہیں دیکھتا ہر وقت وہ بڑا آدمی بننے کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ ہمیں اس بات سے بے حد الجھن ہوتی ہے کیونکہ ہم تینوں اس سے بہت چھوٹے ہیں۔ اس لئے اسے منع بھی نہیں کرسکتے یہ کام امی ابو کو کرنا چاہئے وہ بھی اس کو کچھ نہیں کہتے۔ ہم تینوں ابھی پڑھ رہے ہیں اور بھائی نے انٹر کرکے ملازمت اختیار کرلی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ کوئی ذہنی مریض ہے کیونکہ دنیا میں صرف پیسہ ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا۔ (عارف اینڈ کو۔ کراچی)
مشورہ
عارف اینڈ کو آپ نے صحیح کہا کہ دنیا میں ہر شے پیسے سے نہیں ناپی تولی جاتی۔ آپ کے بھائی ذہنی مریض تو نہیں ہیں البتہ ان کو پیسے کی محبت نے دیوانہ ساکردیا ہے۔ اس کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہوسکتی ہے اور کوئی خاص واقعہ بھی کیونکہ اگر وہ پہلے سے دولت کے لالچی نہیں تھے تو پھر یکایک انہیں روپے پیسے سے دلچسپی کیسے ہوگئی۔ یہ بھی ممکن ہے آپ چھوٹے بہن بھائیوں نے ان کی اس حرکت کو زیادہ نوٹ کیا ہو۔ اگر آپ لوگوں کو ایسا حقیقی طور پر محسوس ہوتا ہے تو پھر اپنے والدین سے اس بارے میں بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ کی بھائی سے دوستی ہے تو آپ انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ اس طرح کا طرز عمل اور سوچ ان کیلئے مناسب نہیں کیونکہ اگر رویئے اور سوچ میں توازن نہ ہو تو پھر انسانی زندگی انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے لگتی ہے۔
ایک ناکام آدمی
میں نے بی اے کیا ہے اور دو سال سے بیروزگار ہوں مجھے کوئی نوکری نہیں ملتی۔ میرے گھروالے مجھے ہر وقت بے روزگاری کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ میرا گھر جانے کو دل بھی نہیں چاہتا۔ امی اور بڑی بہنوں کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان کی دل خراش باتوں سے میں کبھی کبھی اتنا متنفر ہوجاتا ہوں کہ دل چاہتا ہے کہ خودکشی کرلوں مگر مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ خودکشی کس طرح کی جاتی ہے اگر میں ناکام رہا تو لوگ میرا مزید مذاق اڑائیں گے۔ میں ایک ناکام آدمی ہوں جس کو زندگی نے کچھ نہیں دیا۔ ( فرخ‘اسلام آباد)
مشورہ
سوچ اور رویہ درست ہے کہ جب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور پھرزندگی کو موردالزام ٹھہرایا جائے کہ اس زندگی نے ہمیں کچھ نہیں دیا حالانکہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جتنی کہ اس نے کوشش کی ہوتی ہے اگر آپ کو نوکری نہیں مل رہی تو آپ مزید آگے پڑھ سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ چھوٹا موٹا پارٹ ٹائم کام یا ٹیوشنز وغیرہ پڑھاسکتے ہیں۔ اس طرح مصروف رہنے سے آپ کے گھروالے آپ کو طعنے نہیں دینگے اگر آپ کی ماں اس ضمن میں آپ کو کچھ کہتی ہے تو اس کا سبب محض بھلائی ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں